Hazrat Mian Muhammad Siddique Dahar

حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر رحمۃاللہ علیہ  ۱۳۲۳  ھ  بمطابق  ۱۹۰۵ یا ۱۹۰۶ ء میں پیدا ہوئے۔ آپ  کا اصل نام محمد ہے، بچپن میں محمد بخش اور یٰسین کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کے پیرومرشد ،حضرت سید ظفرالایمان رحمۃاللہ علیہ آپ کو محمد ڈاہر کے نام سے موسوم فرماتے۔ِِ

آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے۔ حضرت میاں محمد ڈاہر بن میاں بہاؤ الدین بن میاں چراغ بن میاں اللہ یار بن میاں محمد نور بن میاں محمد حکیم بن میاں محمد حکیم بن میاں محمد عیسٰی۔ یہ تمام حضرات بہت بڑے ولی اللہ ہوئے ہیں۔ حضرت میاں محمد عیسٰی ایک کامل شخص تھے، آپ کی بہت سی کرامات ہیں۔ آپ( حضرت میاں محمد عیسٰی رحمۃاللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ میری  ساتویں پشت والا فرزند ارجمند بہت کامل ولی اللہ ہوگا۔ حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر رحمۃاللہ علیہ کے والد  میاں بہاؤ الدین بھی  صاحب کرامت ولی ہیں، آپ کی بھی بہت سی کرامات ہیں،  آپ نے اپنی خاندانی چیز (روحانی دولت) حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر رحمۃاللہ علیہ کو عطا فرماتے ہوئے کہا کہ جو چیز ہمارے خاندان میں آرہی ہے وہ آپ کی طرف ظہور کر رہی ہے۔

حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر رحمۃاللہ علیہ بچپن میں بہت فاقہ کشی کرتے تھے، ایک دفعہ آپ نے متواتر سترہ دن تک کچھ نہ کھایا۔ بچپن میں اکثر اوقات جب آپ بازار میں جاتے تو آپ ہندوؤں کو نظر  نہیں آتے تھے۔  آپ بچپن سے ہی اللہ اللہ کی طرف مائل تھے، اور جس جگہ کسی اللہ والے کے متعلق سنتے وہاں تشریف لے جاتے۔

 آپ نے اپنے پیرو مرشد سے پہلی ملاقات اس وقت کی جب وہ موضع جہانیاں تشریف لائے ہو ئے تھے، ان سے ملاقات کے بعد آپ کے دل میں ان سے محبت پیدا ہوگئی اور آپ نے ان سے بیعت کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا، اور انھی دنوں حضرت پیر امام علی شاہ رحمۃاللہ علیہ کے عرس کے موقعے پر مکان شریف پہنچ کر حضرت سید ظفر الایمان رحمۃاللہ علیہ سے بیعت کرلی حضرت سید ظفر الایمان رحمۃاللہ علیہ  عرس میں شرکت کے لیۓ حویلی شریف(فیصل آباد،پاکستان) سے مکان شریف آئے ہوئے تھے، حضرت سید  ظفر الایمان رحمۃاللہ علیہ بہت خوش ہوئے اور آپ کے ساتھ بہت محبت اور شفقت سے پیش آئے۔  بیعت ہونے کے بعد حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر رحمۃاللہ علیہ ہر رات عشاء کے بعد اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں حویلی شریف تشریف لے جایا کرتے تھے ، اور گرمیوں میں اپنے پیرو مرشد کو پنکھا جھلتے اور سردیوں میں ان کے پاؤں دباتے، سردیوں میں پانی ہر وقت گرم رکھتے اور جب پیر صاحب تہجد کے لیۓ اٹھتے تو انھیں وضو کرواتے اور آپ کی دست بوسی کرکے  فجر کی نماز سے پہلے گھر تشریف لے آتے۔ اور یہ عمل آپ نے عرصہ دراز تک کیا۔

ایک مرتبہ آپ اپنے پیرو مرشد کے حکم پر تمام کام چھوڑ کر صرف اللہ اللہ کرنے بیٹھ گئے اور صرف توکل علی اللہ کر بیٹھے تو اللہ تعالٰی کی مدد بھی آپ کے شامل حال رہی اور آپ کے تمام کام غیب سے ہونے لگے۔

ایک دفعہ آپ  حویلی شریف اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے فرمایا کہ لوگوں کے میاں صاحب تو شیر محمد رحمۃاللہ علیہ ہیں اور ہمارے میاں صاحب یہ ہیں، یہ جس جگہ ڈیرہ لگادیں  وہاں سے بہت سی خلقت فیضیاب ہوگی، میں نے صرف ایک شخص کے لیۓ یہاں ڈیرہ لگایا ہے جس سے بہت سے لوگوں کو فیض حاصل ہوگا۔

 حضرت میاں محمد صدیق ڈاہر رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ حسین رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ ہمارا گہرا تعلق ہے، ایک روز میں ان کے مزار پر بیٹھا آنسو بہارہا تھا کہ آپ مجھ سے بلا واسطہ کلام فرمانے لگے اور مزار سے باہر تشریف لے آئے، پھر تو میں جب بھی کام سے فرصت پاتا آپ کے مزار پر آجاتا، آخر ایک روز آپ نے مجھ کو بیعت فرمایا۔ اس بات کا علم جب میرے پیرومرشد کو ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ سجادہ نشین مکان شریف صاحبزادہ حضرت مظہر قیوم صاحب بھی تشریف فرما تھے فرمانے لگے اس لڑکے نے تو مکان شریف کا فیض لوٹ لیا ہے۔

آپ کے پاس کئی ابدال بھی آتے ، کوئی چالیس دن رہتا اور کوئی اس سے زیادہ رہتا۔ آپ ایسے فنا فی الشیخ تھے کہ ایک روز آپ کے پیرو مرشد نے کسی کام کے سلسلے میں ایک گاؤں میں بھیجا تو گاؤں والے جو کہ حضرت سید ظفر الایمان رحمۃاللہ علیہ  کے مرید تھے آپ ہی کو اپنا مرشد سمجھتے رہے گویا آپ اس شعر کے مصداق تھے۔ فنا اتنا تو ہوجاؤں مین تیری ذات والا میں، جو مجھ کو دیکھ لے اسے تیرا دیدار ہوجائے آپ کے بارے میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ جو ایک دفعہ آپ کے پاس جائے یا آپ کے پیچھے ایک نماز پڑھ لے وہ اللہ کے عشق میں دیوانہ ہوجاتا ہے۔

ایک دفعہ آپ کو کئی مشکلات کا سامنا تھا اور گھر میں بھی  کافی تنگی تھی تو انھی دنوں کی بات ہے کہ ایک رات جب آپ یاد الٰہی میں مشغول تھے کہ دیکھا کہ  تمام حجرہ نور سے منور ہوگیا اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، اسی صبح  ایک گاڑی چنیوٹ سے آئی اور آپ کے ڈیرہ کری والا کے قریب آکر ٹھہر گئی اور ایک آدمی ضعیف البدن آپ کے پاس آیا اور کہا کہ میں مدینہ منورہ سے آیا ہوں مجھ  کو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے، اس ابدال  نے فرمایا کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نائب رسول کا خطاب دیا ہے اور آپ کی تمام مشکلات انھی دنوں حل ہوجائیں گی، اس نے کہا کہ میں اب کشمیر میں جاکر شام کی نماز پڑھوں گا ، اس وقت آفتاب غروب ہورہا تھا۔ اس نے کئی ایک کرامات دکھائیں۔ جونہی وہ حجرہ سے باہر نکلا، آپ فرماتے ہیں کہ میں بھی ساتھ نکلا وہ حجرہ کی دوسری طرف مڑا، جب میں دوسری طرف گیا وہ غائب ہو گیا تھا۔

آپ کے پیرو مرشد کی آپ پر بڑی کرم نوازی تھی اور جس مجمع میں آپ ہوتے وہاں ضرور تصوف کی باتیں سمجھاتے۔ ایک  دفع جمعہ کے دن آپکے پیرومرشد وعظ فرما رہے تھے اور نظرمبا رک آپ کی طرف لگی ہوئی تھی کہ آپ کی آنکھ جھپکی اور آپکو تھوڑی سی اونگھ آگئی(کیونکہ آپ تین چار دن سے رات دن کام میں مصروف تھے) تو آپکے پیرومرشد نے وعظ کرنا بند کردیا اور فرمایا کہ جس کے لیۓ ہم سنارہے ہیں وہ تو سورہا ہے۔ تمام حاضرین میں سے معزز آدمیوں نے اٹھ کر عرض کی کہ حضرت ضرور کچھ وعظ شریف سنائیں لیکن آپ نے کچھ بھی نہ فرمایا فقط خطبہ پڑھ کر جمعہ پڑھا دیا۔ پیرومرشد کی آپ سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل اکیس سال تک آپکے پیرومرشد نے حویلی شریف سے آپکے علاقے احمدآباد میں آکر عید کی نماز پڑھائی۔  دوسرے  علاقوں کے لوگ عرض کرتے کہ اس دفعہ عید کی نماز ہمارے ہاں پڑھائیے تو آپکے پیرو مرشد فرماتے کہ مجھے حکم ہی ایسا ہے کہ احمدآباد میں عید پڑھوں، میں آگے ہوں اور  محمد ڈاہر پیچھے ہو، بس ہماری عید ہے۔

 ایک دفعہ آپ اپنے پیرومرشد کے ساتھ علی پور  میں سید جماعت علی شاہ رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے ، سید جماعت علی شاہ رحمۃاللہ علیہ نے آپکے پیرومرشد کے کہنے پر آپکو اپنی دعا اور فیض سے نوازا۔ اس کے علاوہ آپ کو چنیوٹ کے قریب رہنے والے ایک فقیر حضرت پیر بخش ڈوگرہ المعروف ڈھگی والے فقیر صاحب رحمۃاللہ علیہ نے بھی اپنے فیض سے نوازا۔  حضرت میاں شیر محمد شرقپوری  رحمۃاللہ علیہ بھی آپ پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔

آپکے پیرومرشد  حضرت سید  ظفر الایمان رحمۃاللہ علیہ کا وصال   ۱۷  ذوالحج ۱۳۷۰ ھ   میں ہوا، وصال سے پہلے انھوں نے آپ سے فرمایا کہ کراچی سے پشاور تک جہاں آپکی مرضی ہو ڈیرہ لگائیں اور لوگوں کو اپنے فیض سے نوازیں۔ آپ نے اپنے پیرو مرشد کے فرمان کے مطابق کئی شہروں کا چکر لگایا  اور لیہ شریف (پنجاب) کو اپنا ڈیرہ لگانے کے لیئے منتخب فرمایا، جب آپ لیہ شریف تشریف لے جارہے تھے تو راستے میں حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ کےمزار پر بھی حاضری دی اور آپ کی زیارت بھی کی  حضرت سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ نے لیہ شریف جانے کے سلسلے میں آپکی رہنمائی بھی فرمائی۔ آپ نے چک نمبر ۳۳۵  ٹی ڈی اے میں ڈیرہ لگایا، جو ڈیرہ محمدآباد کے نام سے مشہور ہے۔

 آپ ۱۳۸۲ ھ  میں  حج کے لیئے تشریف لے گئے، رضۂ اطہر پر جب آپ حاضر ہوئے تو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ پر بڑی عنایات کیں، ان عنایات کو دیکھ کر آپ نے ارادہ فرمالیا کہ ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر رہوں گالیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عزیز آپ کو پاکستان جانا پڑے گا کیونکہ بہت سے لوگ آپ سے فیضیاب ہوں گے،  آپ کو تقریبا دس دن بعد روضۂ اطہر سے روانہ کردیا گیا۔ اس کے بعد آپ مکہ شریف تشریف لائے تو یہاں بھی آپ پر لطف و کرم کی بارش ہوتی رہی۔

جب آپ حج سے تشریف لے آئے تو تبلیغ کا سلسلہ پھر سےشروع کردیا۔ آپ ہر جگہ اور ہر رنگ میں تبلیغ فرماتے۔ آپ کے پاس کوئی آدمی خواہ کسی کام کے لیئے آتا اس کو اللہ اللہ کی طرف ضرور لگاتے۔ آپ حق بات کہنے سے کبھی نہیں ڈرتے تھے اور بڑے بڑے زمینداروں اور حاکموں کے سامنے بھی ہمیشہ حق بات کہتے۔  اور ان میں جو خرابی دیکھتے اس کی  نشاندہی کر کے اصلاح فرماتے۔

 ایک دن آپکے پاس ٹی بی کا مریض آیا ، ڈاکٹرز اسےلا علاج قرار دے چکے تھے، آپ نے اسے چند روز ڈیرہ پر رکھا  اور اسے گندم کاٹنے پر لگادیا۔ اور چند دن بعد اسے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ جب وہ گھر گیا اور ڈاکٹرز کو اپنا معائنہ کروایا تو ڈاکٹرز نے حیران ہو کر پوچھا کہ کہاں سے علاج کروایا ہے ، تم تو بالکل ٹھیک ہو گئے ہو، تو اس نے کہا کہ یہ سب تو میرے پیرومرشد کی کرم نوازی ہے۔  ایک آدمی کو کان کے پیچھے پھنسی تھی، آپ نے توجہ فرمائی تو پھنسی فی الفور غائب ہوگئی۔  ایک تحصیل دار صاحب کو جو کہ قریب المرگ تھے آپ نے دم فرمایا تو فی الفور ٹھیک ہوگیا۔ غرضیکہ آپ سے بے شمار کرامات سرزد ہوئیں۔سب کرامات کا بیان کرنا مشکل ہے۔

 آپ فرماتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہر وقت دل میں اللہ کا ذکر کرتا رہے یعنی ہمیشہ دل کی توجہ اللہ تعالٰی کی طرف رہے، خواہ کسی مجلس میں ہو یا تنہائی میں یا کسی کام میں مشغول ہو، بس ہر حال میں اللہ کی یاد دل میں قائم رکھے۔

 آپ کو آپکے وصال سے شب برأت پر آگاہ کردیا گیا تھا، اسی لیئے آپ نے وہ سارا ماہ رمضان اعتکاف میں گزارا، ورنہ ہر سال رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے۔ آخری دنوں میں آپ کافی کمزور ہوگئے تھے لیکن پھر بھی تمام نمازیں جماعت سے ادا فرماتے اور عشاء کے بعد خاص طور پر دوستوں کے ہمراہ حلقہ کرتے اور توجہ دیتے۔ آپ کا وصال مبارک ۳ ربیع الاول ۱۳۹۳ ھ  کو دوپہرکے ٹھیک ۳  بجے ہوا۔ وصال سے کم و بیش آدھا گھنٹہ پہلے آپ کے دہان مبارک میں بالکل سفید نور نظر آتا تھا۔ وصال کے بعد آپکے بیٹے ،پیر حضرت میاں محمد اصغر مدظلہ العالی نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرمارہے ہیں کہ میں زندہ ہوں اور صرف آٹھ پہر مجھ پر موت کی غشی طاری ہوئی، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ نزع کے وقت  حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے تھے،اور جب مجھے قبر میں اتارا گیا تو اس وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اور منکر نکیر نے جب مجھ سے سوالات کیئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ اللہ اس کا رب ہے اور میں اس کا نبی ہوں۔ خواب میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جس طرح میں زندہ ہوا ہوں، کوئی فقیر اس طرح زندہ نہیں ہوا۔

To read in detail click on the following link

Shehbaz-e-Muhammadi

 

 

Leave a comment