حضرت سید ظفرالایمان شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۱۳ ھ میں مکان شریف(گرداس پور، انڈیا) میں پیدا ہوۓ ۔آپ مادرزاد ولی تھے۔ آپ نے ابتداىٔ تعلیم مکان شریف اور دھرم کوٹ میں حاصل کی۔ آپ کی طبعیت کا رجحان بچپن ہی سے اللہ اللہ کی طرف ما ئل تھا۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت سید میر بارک اللہ رحمۃاللہ علیہ سے بیعت فرمایٔ۔ آپ کا حلیہ مبارک اپنے والد ماجد حضرت سید میر بارک اللہ رحمۃاللہ علیہ سے ملتا تھا۔ آپ کا شجرہ نسب یہ ہے۔
۔ آپ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی صحبت سے بھی فیضیاب ہوۓ۔ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ ، حضرت سید ظفرالایمان رحمۃاللہ علیہ کے دادا( حضرت سید صادق علی شاہ رحمۃاللہ علیہ) کے خلیفہ (حضرت امیرالدین رحمۃاللہ علیہ) کے خلیفہ ہیں۔ حضرت میاں شیر محمدصاحب نےگنجینۂ معرفت کے کیٔ گوہرجو انھیں مکان شریف سے عطا ہوۓ،آپ کو دیۓ۔آپ نے حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق مکان شریف میں موجود تمام زمینوں ،باغوں اور محلات کو خیرباد کہہ دیا اور حویلی شریف(ضلع فیصل آباد،پنجاب،پاکستان) میں آکرڈیرہ لگادیا۔
حویلی شریف میں تشریف لانے سے پہلےایک دن آپ چک حماؤں کی مسجد میں پہنچے، آپ اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت میں غوطہ لگا رہے تھے، آپ نماز پڑھانے کھڑے ہوگۓ،کیٔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ قرآن پاک تجوید کے ساتھ نہیں پڑھتے لہذامولوی صاحب جما عت کروائیں،چند لوگوں نے کہا کہ آخر آپ ، حضرت میر بارک اللہ کے صاحبزادے ہیں،لہذا جماعت آپ ہی کرائیں،آپ نے نماز پڑھائی۔جب آپ نے داہنی طرف سلام پھیرا تولوگوں کا بیان ہے کہ آپ کے منہ مبارک سے آگ نکلی جو ہم تمام کو جلاتی ہوئی چلی گئی اور تمام لوگ زمین پر تڑپنے لگے اور اللہ اللہ کا نعرہ لگا نے لگے،اور جب آپ نے دوسری جانب سلام پھیرا تو ادھر بھی یہی کیفیت طاری ہوگیٔ،بس پھر کیا تھا تمام لوگ مستی کے عالم میں تڑپ رہے تھے،آپ مسجد سے سیدھے میاں آلھہ کے گھر تشریف لے گۓ تو وہاں بھی یہی کیفیت طاری ہوگیٔ،جس پر آپ کی نظر پڑتی وہ بے خود ہو کر زمین پر تڑپنے لگتا اور اللہ اللہ کے نعرے لگاتا ۔ خلقت جوق در جوق مختلف دیہاتوں سے آپ کی شہرت سن کر آتی،آتے ہی تمام پر مستی سی طاری ہوجاتی۔ تمام گاؤں میں یہی کیفیت طاری ہوگیٔ،اس بات کی خبر جب حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کو ہوئی تو انھوں نے آپ کے پاس ایک خاص آدمی بھیجا اور فرمایا کہ اس طرح لوگوں کو نہ تڑپاؤ،کام آہستہ آہستہ چلانا چاہئے،آپ کے بڑے بھائی حضرت میر مظہر قیوم سجادہ نشین مکان شریف نے بھی آپ کو منع فرمایا ہے۔
آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی،آپ کبھی کبھی زمین پر بیٹھ جاتے اور کپڑوں کی کویٔ پرواہ نہ کرتے۔آپ حد درجے کے بہادر اور بہت سخی تھے، آپ عربوں کی بہت عزت فرماتے،ایک دفعہ ایک عربی آیا آپ نے اسے گھوڑی عنایت فرمایٔ۔ آپ مدنی عربی کو سو روپے اور مکی عربی کو ۵۰ روپے عنایت فرماتے۔ آپ نہایت حلیم،بردبار اور خدا پر بھروسہ رکھنے والےاور نہایت متوکل تھے۔ آپ کا رعب ایسا تھا کہ خواہ کویٔ بھی آدمی آتا جب تک آپ بات شروع نہ فرماتے وہ آدمی بات شروع کرنے کی جرأت نہ کرسکتا۔ آپ کی خاموشی نہایت طویل تھی، حتیٰ کہ اس زمانے کے ایک مشہور واعظ پیر احمد شاہ ہزاروی نے فرمایا کہ ہمارا وعظ اتنا اثر نہیں کرتا جتنی کہ مکان شریف والوں کی خاموشی اثر کرتی ہے۔
آپ کو پنڈلی مبارک پر معمولی سی چوٹ آیٔ تھی،بعد میں وہ زخم کی شکل اختیار کرگیٔ۔ علاج سے قدرے فائدہ بھی ہوا۔عمر کے آخری سال میں آپ پر ایک مستی کاعالم چھاگیا تھا اور آپ بارہا یہ بھی فرماتے کے اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ جو بھی تمھاری زیارت کرے وہ جنتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو محبوبیت کا درجہ عطا فرمایا تھا۔